یمن كے معتبر عالمِ دين ’’شیخ عبدالمجید زندانی‘‘ قرآن کریم کے علمی اعجاز اور سائنسی تجربات (جو قرآن کریم کی تصدیق کرتے ہیں) پر معمور ہیں اور اِس پر کافی کام بهى کیا ہے۔
وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے كہ میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا.. اور یہ سیمینار بیالوجی اور اِس علم میں نئے انکشافات سے متعلق تھا۔ اِس ميں ایک پروفیسر امریکی (یا جرمن) نے یہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کی ذریعے ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے, اُن کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے.. پھر اس نے مثالیں دیں.. مثال کے طور پر جب انجیکشن لگتا ہے تو درد کا احساس صرف جلد کو ہوتا ہے۔ اِس کے بعد درد کا احساس نہیں ہوتا..
اس پروفیسر کی باتوں کا لب لباب یہی تھا کہ انسانی جسم میں درد کا مرکز اور درد کا احساس صرف جلد تک محدود ہے.. جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو درد کا احساس نہیں ہوتا..
شیخ عبدالمجید زندانی کہتے ہیں.. میں کھڑا ہوا اور کہا.. “پروفیسر! یہ جو آپ نئی تحقیق لیکر آئے ہیں ہم تو چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں..” پروفیسر نے کہا.. “یہ کیسے ہو سکتا ہے.. یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا..”
شیخ زندانی نے کہا کہ ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں.. اُس نے کہا.. “وہ کیسے؟” شیخ نے کہا.. “میں نے قرآن کی آیت پڑھی..
‘إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا ‘‘
’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ,انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے.. جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے.. تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں.. یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے.. (سورہ النّسا,56)
یعنی کہ جب اہل جہنم کی جلد اور کھال جل جائے گی تواللہ نئی جلد اورکھال دے گا تاکہ نافرمان لوگ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں.. معلوم ہوا کہ درد کا مرکز جلد ہے.
شیخ کہتے ہیں.. جب میں نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا ۔ وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکٹرز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا.. “کیا یہ ترجمہ صحیح ہے..؟” سب نے کہا ترجمہ صحیح ہے.. وہ حیران و پریشان ہو کر خاموش ہو گیا..
شیخ زندانی کہتے ہیں.. جب وہ باہر نکلا تو میں نے دیکھا وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور برطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اِس آیت کا ترجمہ بتاؤ..
اُنہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا.. وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا.. “سب یہی ترجمہ کر رہے ہیں..”
تب اُس نے کہا.. “مجھے قرآن کا ترجمہ دو..” شیخ کہنے لگے.. میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا..
شیخ عبدالمجید زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا..
“میں نے اسلام قبول کر لیا ہے‘‘۔
Comments