دُنیا کا سرد ترین گاؤں - اویمیاکون (روس)
------------------
آسائشوں سے بھرپور، شور شرابے سے اَٹی، جھمیلوں سے بھری اور تیز رفتار دنیا سے دور... روس کی ریاست سائبریا میں سرد و سست، خاموش اور دنیا سے کٹ کر ایک طرف پڑا ہوا ایک ایسا گاؤں بھی موجود ہے جہاں عام حالات میں سارا سال اوسط درجہ حرارت منفی40 کے ارگرد رہتا ہے، اِتنی سردی کو سوچتے ہوئے یہاں انسانی بستی کا خیال ناقابل یقین لگتا ہے مگر وہاں اب بھی لوگ بستے ہیں۔
یہ ہے دنیا کا سرد ترین گاؤں اویمیاکون۔ جہاں 2018کے آغاز میں درجہ حرارت سے آگاہ کرنے والا الیکٹرونک تھرمامیٹر منفی62 ڈگری سینٹی گریڈ پر پھٹ گیا تھا۔ 1933میں یہاں منفی67.7 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا جو شمالی نصف کرے میں سب سے کم درجہ حرارت تسلیم کیا جاتا ہے۔
اویمیاکون سطح سمندر سے 750میٹر بلندی پر واقع ہے۔ اس معاملے میں اس گاؤں والے بڑے بدقسمت واقع ہوئے ہیں کہ دسمبر میں يہاں سورج کی روشنی صرف 3گھنٹے تک رہتی ہے جبکہ جون میں یہ دورانیہ 21گھنٹے تک ہوتا ہے۔
اویمیاکون میں جنوری میں عام طور پر اوسط درجہ حرارت منفی50 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور آنکھوں کی پلکوں میں چار دیواری سے باہر نکلتے ہی برف جم جاتی ہے۔
ماسکو سے 7ہزار کلومیٹر دور واقع دنیا کا سرد ترین مقام سمجھے جانے والے اس گاﺅں میں 500لوگ مقیم ہیں ۔ 1920ء اور 30کی دہائی میں یہاں آبادی نہیں تھی بلکہ خانہ بدوش یہاں موسم بہار میں روکتے تھے، پھر سوویت حکومت نے اسے مستقل آبادی میں تبدیل کردیا۔
یہ گاؤں ویسے تو اپنے موسمی حالات کی وجہ سے ویسے بھی دنیا کی زیادہ تر آسائشوں سے فائدہ اٹھانے سے معذور رہتے ہیں مگر زیادہ مسئلہ پانی کا ہے۔ یہاں گھروں میں پائپ نہیں لگائے جاتے کیونکہ پانی جمنے سے اِنکے پھٹنے کا ڈر ہوتا ہے۔
یہاں پر گھر ایسے تعمیر کیے گئے ہیں جو سردی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ لوگوں کا زیادہ وقت گھر کے اندر ہی گزرتا ہے۔
یہاں منفی52 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھی اسکول کھلے رہتے ہیں، اور گاڑیاں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں تاکہ پیٹرول جم نہ جائے۔
یہاں کے رہنے والوں کے پاس مویشی اور ماہی گیری آمدنی کے بڑے ذرائع ہیں۔ سیاحت کے لئے آنے والوں سے بھی اس علاقے کے رہنے والوں کو آمدن ملتی رہتی ہے۔
مویشیوں ميں رینڈئیر (قُطبی ہرن) ہی واحد پالتو جاندار ہے جس پر یہاں کے موسم کا زیادہ اثر نہیں ہوتا، اسلئے اکثریت کے پاس پالتو جانور کے طور پر یہی جانور ہوتا ہے جس سے اپنی ضروریات پوری کی جاتی ہیں، فارمز میں گائے تو موجود ہیں مگر وہ جون سے اکتوبر تک ہی دودھ دیتی ہیں۔
جہاں تک مچھلیوں کی بات ہے تو وہ پانی سے باہر نکلتے ہی 20سیکنڈ میں مجنمد ہوجاتی ہیں اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے ریفریجریٹر کی ضرورت نہیں کیونکہ ہوا کا درجہ حرارت اتنا ہوتا ہے جو مچھلی خراب نہیں ہونے دیتا۔
سب سے مشکل کام یہاں پر دکانیں چلانا ہے،،، کیونکہ جہاں گھر سے بھر قدم رکھتے ہی آپکی پلکوں تک پر برف جام جاتی ہو، وہاں پر کھلی فضا میں دکان یا سٹال لگا جما دینے والی سردی برداشت کر کے وہاں کھڑے رہنا ایک عجوبہ ہی ہے، مگر کاروبار کرنے والوں کو الله نے یہ حوصلہ دے رکھا ہے، اور وہ اپنی ڈیوٹی بخوبی نبھاتے ہیں۔
کاروبار یا دکانداری اسلئے بھی مشکل کام ہے کہ یہاں سورج کی روشنی سے لطف اندوز ہونے کا موقع لوگوں کو سال کے بیشتر حصوں میں محض چند گھنٹے کے لیے ہی ملتا ہے۔ گرمیوں میں کبھی کبھار درجہ حرارت 30سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے جسکو یہ لوگ ’’اچھا موسم‘‘ خیال کرتے ہیں۔
Comments